Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

 ممی اور نانو عمرے کی ادائیگی کے بعد بالکل ہی بدل گئی تھیں۔ نماز جو پہلے شازو نادر ہی پڑھتی تھی وہ اب باقاعدگی سے ادا کرتی تھی۔ تلاوت قرآن پاک اور تسبیحات کے ورد بھی ان کی روٹین میں شامل ہو گئے تھے دو دن ہوئے تھے اس کو یہاں آئے ہوئے اور ان دو دنوں اس نے ان کے چہروں پر پہلی بار اطمینان و خوشی دیکھی تھی۔
”آپ کو وہاں بے حد یاد کیا بیٹا! ڈھیروں دعائیں مانگ کر آئے ہیں آپ کیلئے ہم لوگ۔
“ مثنیٰ اس اپنی پاس بیٹھاتی ہوئی گویا ہوئی۔
”انکل آپ لوگوں کے ساتھ نہیں آئے ممی؟“ اس نے کمبل ان پر ڈالتے ہوئے سرسری لہجے میں دریافت کیا۔
”ہمارے ساتھ آئے تھے صفدر لیکن وہ چند گھنٹوں بعد ہی تھائی لینڈ کیلئے روانہ ہو گئے ،دراصل تھائی لینڈ کے کسی ہوٹل میں صفدر کے دوست نے سعود کو دیکھا ہے اور اطلاع ملتے ہی وہ وہاں چلے گئے۔


“ وہ تکیہ آگے کھسکا کر اس کے قریب ہو کر اس کے بالوں میں محبت سے انگلیاں پھیرتے ہوئے بتا رہی تھیں۔
”آپ کو واپس آئے چار دن ہو گئے ہیں انکل نے انفارم نہیں کیا؟“
”کئی کالز آ گئی ہیں ان کی آہ… صفدر کے دوست نے بے وقوفی کی جا کر سعود کو بتا دیا کہ وہ کہیں نہ جائے صفدر آ رہے ہیں پھر بھلا وہ کہاں رکنے والا تھا۔ موقع ملتے ہی وہ ہاں سے چلا گیا ،صفدر اس کو ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
“ان کی آواز میں شکست اور پریشانی تھی۔
”سعود یہ کیوں کر رہا ہے؟ کیا ملے گا اس کو یہ سب کرکے؟“
”اپنے ساتھ ساتھ وہ ہم کو بھی پریشان کر رہا ہے ایک بے وفا لڑکی کی بے وفائی کا بدلہ وہ خود سے لے رہا ہے اور ساتھ ہم سے بھی۔“
”آپ کا کیا قصور ہے ممی اور صفدر انکل تو خود اس کی شادی کرکے آئے تھے پھر وہ آپ لوگوں سے کیوں خفا ہے۔“
”یہ مکافات عمل ہے میری جان۔
“ وہ اس کے خوبصورت چہرے کو دیکھتے ہوئے ندامت بھرے لہجے میں بولیں۔
”مکافات عمل… یہ کیا ہے ممی؟“
”جیسی کرنی ویسی بھرنی میں نے آپ کے حقوق ادا نہیں کئے صفدر نے بھی جنرلی اسٹیپ فادر کا رول ادا کیا ،نہ خود آپ سے قریب ہوئے نہ مجھے ہونے دیا اور حد تو یہ تھی ان کی بدگمانی کہ میں تمہارا نام بھی نہیں لے سکتی تھی اور پھر ہمارا بہت جھگڑا ہوتا تھا ایک عرصہ تک میں آپ سے جدائی کے عذاب میں مبتلا رہی اور وہ جان کر بھی انجان بنے رہے تھے اور آج وہ ہی عذاب بیٹے کی جدائی کا ان پر مسلط ہے ان کو معلوم ہو رہا ہے اولاد کی جدائی کتنا دکھ دیتی ہے۔
لبوں پر مسکراہٹ اور آنکھوں میں برسات رہتی ہے۔“ وہ بے اختیار اس سے لپٹ کر رونے لگی تھیں۔
”ممی! مت کہیں اس طرح انکل بالکل بدل گئے ہیں ،پاپا جیسا برتاؤ ہے ان کا میرے ساتھ ،پھر کیا آپ سعود بھائی کی جدائی محسوس نہیں کرتی ہیں؟“
”مجھے تو عادت سی ہو گئی ہے اولاد کی جدائی برداشت کرنے کی لیکن میرا دل کہتا ہے صفدر آپ کو مجھ سے دور نہ کرتے تو آج سعود کی جدائی ان کیلئے نہیں ہوتی ،خوش ہوتے وہ بھی اور ہم سب بھی۔
“ وہ اس سے علیحدہ ہوتی ہوئیں گویا ہوئیں۔
”جو گزر گیا سو گزر گیا آپ دکھی کیوں ہوتی ہیں ممی! پلیز آپ انکل کو معاف کر دیں ،بے حد پاک و مقدس جگہوں سے ہو کر آئی ہیں آپ ،انکل کو تو آپ کو وہاں جانے سے قبل ہی معاف کر دینا چاہئے تھا۔“ وہ خلوص بھرے انداز میں بولی۔
”بہت اعلیٰ ظرف ہو آپ فیاض کی طرح بیٹی تو اس کی ہو ،صفدر کو میں بہت پہلے معاف کر چکی تھی کسی کے خلاف دل میں غبار بھر کر میں بھی نہیں جی سکتی پری! بس کچھ تکلیف دہ باتیں ایسی ہوتی ہیں جو بھولائی نہیں بھولتی۔
“ دونوں ہی خاموش ہو گئی تھیں۔
وہ ایک کمبل میں لیٹی تھیں مثنیٰ سرک کر اس کے تکیے پر آ گئی ،وہ بھی ان کی آغوش میں سما کر ممتا کی مہک ،ممتا کی گرمی سے دل و دماغ کو شانت کر رہی تھی ماں کی چاہت کو ترسی روح سیراب ہو رہی تھی دل ان لمحوں کے امر ہو جانے کی خواہش مند تھا۔
”پری! میرے پاس فیاض کی کال آئی تھی۔“
”پاپا کی کال… آپ کے پاس ممی؟“ شدید حیرت کا جھٹکا لگا تھاوہ اٹھ بیٹھی تھی۔
”جی… وہ بتا رہے تھے طغرل نے آپ کو پرپوز کیا ہے۔“ وہ اس کی طرف دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے کہہ رہی تھیں ،اس کے دل کی حالت عجیب سی تھی وہ کچھ کہہ نہ سکی۔
”پری بیٹا! آپ خوش نہیں ہو؟“
”پاپا نے یہ نہیں بتایا طغرل کی مما مجھے بہو بنانا نہیں چاہتی ہیں اور وہ دادی کے سامنے مجھے بری طرح رد کر چکی ہیں۔“ وہ دھیمے لہجے میں سر جھکا کر گویا ہوئی تھی۔
”رد کر چکی ہیں ،ہوں لا رہی ہوں گی اپنی کوئی بھانجی۔“
”جی وہ اپنی بھتیجی کو طغرل کی بیوی بنانے کا تہیہ کر چکی ہیں اور میں زبردستی کسی کے گلے کا ہار کس طرح بن سکتی ہوں ممی!“
”اس خاندان کی عورتوں میں ایسی ہی چالاکیاں بھری ہوئی ہیں اپنی من مانی کرنے میں دوسروں کا گھر برباد کرنا بھی ان کیلئے مشکل نہیں ہے مگر وہ آپ سے خائف کیوں ہیں؟ طغرل کی خواہش کے باوجود آپ کو بہو بنانا کیوں نہیں چاہتی؟“ وہ متعجب تھیں۔
”اس لئے ممی کہ میں ایک ڈرائیورس عورت کی بیٹی ہوں۔“
###
طغرل! پری کی زندگی پہلے ہی بے حد کٹھن ہے تم اس کو مزید مشکل مت کرو،تمہاری ماں ایک بار نہیں بار بار پری کو بہو بنانے سے انکار کر چکی ہے وہ پری کو اس حوالے سے بالکل پسند نہیں کرتی۔“ پورا ہفتہ ہی گزر گیا تھا اسے دادی کو راضی کرتے ہوئے اور دادی ذرا بھی ٹس سے مس نہیں ہو رہی تھیں ان کے منہ پر ناں ہی تھی۔
”میں پسند کرتا ہوں اس کو میری چاہت اس کیلئے کافی ہو گی ،شادی میں کرنا چاہ رہا ہوں اس سے ممی نہیں پھر آپ کیوں فکر مند ہیں؟ میں وعدہ کرتا ہوں آپ سے آپ کی لاڈلی کو بہت خوش رکھوں گا۔“ وہ ان کے قریب بیٹھا ہوا منتیں کر رہا تھا۔
”دیکھو بیٹا! میں نے اپنی تمام زندگی بڑی عزت و وقار کے ساتھ گزاری ہے ،کبھی کسی کو اپنی طرف انگشت نمائی کا موقع نہیں دیا ،اپنی عزت کے معاملے میں ،میں بڑی خود غرض ہوں اور اب جب چل چلاؤ کا وقت ہے تم ایسے کام کروا کر میری عزت خاک کرنا چاہتے ہو؟“
”موت آئے آپ کی دشمنوں کو دادی جان۔
”میرا مشورہ یہی ہے بھول جاؤ پری کو اور اپنی ماں کی بات مان جاؤ۔“
”پھر ٹھیک ہے۔“ وہ خراب تیوروں کے ساتھ اٹھ کھڑا ہوا۔
”ارے یہ ایک دم اونٹ کی طرح اٹھ کر کہاں چل دیئے؟“ وہ آگے رکھا ہوا پاندان دور کھسکاتے ہوئے پریشانی سے بولیں۔
”جب آپ کو میرا خیال نہیں ہے ،میری فکر آپ کرتی نہیں ہے تو پھر میں کہیں بھی جاؤں یہ مت پوچھیں آپ۔
“ وہ جانے لگا۔
وہ اس وقت بے حد اپ سیٹ لگ رہا تھا ،اماں جان اس کے چہرے کو دیکھتے ہوئے آبدیدہ ہو گئی تھیں کتنی بے چارگی تھی اس کے انداز میں۔
”میرے بچے طغرل! میری مجبوری سمجھنے کی کوشش کر ،تیری دادی برسوں قبل اپنے اقتدار سے دستبردار ہو گئی ہے اب میرے زور زبردستی کرنے کے دن ہوا ہو گئے ہیں اب صرف بھرم ہی باقی رہ گیا ہے۔“
”اب مجھے کوئی شکایت نہیں ہے آپ سے ،آپ صرف اور صرف اپنے وقار و عزت کی پروا کیجئے ،میری کسی کو پروا نہیں۔
”ایسی باتیں مت کر میرے بچے!“ وہ اس کی طرف بڑھیں۔
”طغرل… طغرل بات تو سن میری تو۔“ مگر وہ رکا نہیں تیزی سے چلا گیا۔ طغرل کو تیزی سے وہاں سے گزرتے ہوئے عائزہ نے دیکھا تو وہ بھی گھبرا کر اماں کے کمرے میں آئی تھی۔
”دادی جان! کیا ہوا ہے؟ طغرل بھائی بے حد غصے میں یہاں سے گئے ہیں۔“ وہ نڈھال انداز میں بیٹھی دادی سے مخاطب ہوئی تھی۔
”کوئی نئی بات نہیں کی اس نے ،وہ ہی رٹ لگا رکھی ہے پری سے شادی کرنے کی ،گویا انسانوں کی نہیں گڈا گڑیا کی شادی ہو۔“ ان کے لہجے میں بے اختیاری و بے بسی کا تاثر تھا۔
”پاپا نے فیصلہ پری اور اس کی ممی پر چھوڑ دیا ہے تو پھر آپ کیوں طغرل بھائی کو نا امیدی کا راستہ دکھا رہی ہیں؟“ وہ ان کے قریب بیٹھتے ہوئے گویا ہوئی۔
”ایک ہی کہانی کو دوبارہ دہرانا بے وقوفی ہوتی ہے بیٹی! کل پری کی ماں اس گھر میں دلہن بن کر آئی تو وہ ہماری نہیں فیاض کی پسند تھی ،وہ ایسی ہی جنونی محبت کرتا تھا اس سے کہ اپنی محبت کے سامنے اس نے ہماری بھی پروا نہ کی تھی اور ہم کو مجبوراً اس کی ضد کی خاطر ہامی بھرنا پڑ گئی مگر دل میں جو بیٹے کی نافرمانی و خودسری کی کسک بھر گئی تھی اس کسک نے ان کا گھر بسنے نہ دیا اور اب جو کچھ ہے وہ تمہارے سب کے سامنے ہے کون خوش ہے؟“ اماں کے لہجے میں پریشانی و دکھوں کی لرزش تھی۔
”صباحت ایک ضدی اور ناسمجھ بیوی ثابت ہوئی اس نے فیاض کو اول روز سے ہی شک کی نگاہ سے دیکھا اور آج بھی ان میاں بیوی کے درمیان اعتبار اور محبت کی مضبوط ڈور بندھ ہی نہ سکی۔ حقیقت یہ ہے کہ جو خوشی میں نے مثنیٰ کی سنگت میں فیاض کے چہرے پر دیکھی تھی ایسی خوشی ،ویسا سکون آج تک پھر کبھی فیاض کے چہرے پر میں نے نہیں دیکھا ،میرے بچے سے وہ مسکراہٹ روٹھ گئی ہے۔
”دادی جان آپ اعتراف کر رہی ہیں نا وہ فیصلہ آپ سے غلط ہوا تھا اور جب فیصلے غلط ہو جائیں تو ان کی سزا کئی زندگیوں کو بھگتنی پڑتی ہے۔ ہم سب سزاؤں میں ہی تو مبتلا ہیں۔“ وہ کوشش کے باوجود اپنے آنسو ضبط نہ کر سکی تھی۔
”فیاض آ جائے تو میں بات کرتی ہوں اس سے کیا سوچ کر اس نے طغرل کی حوصلہ افزائی کی ہے؟“ وہ سوچتے ہوئے بولیں۔
###
ذاکرہ خاصی دیر تک وہاں کھڑی ان کے مرنے کی تصدیق کرتی رہی اور جب اس کو یقین ہو گیا کہ وہ مر گئے ہیں وہ سرعت سے ماہ رخ اور اعوان کے پاس آئی جو گیسٹ روم میں بے قراری سے اس کا انتظار کر رہے تھے۔
”کام ہو گیا ہے رانی صاحبہ! مر گئے ہیں وہ دونوں اب آپ لوگوں کو یہاں سے اسی وقت نکلنا ہوگا ،معمولی سی دیر بھی خطرناک ہو گی۔“
”تم نے اچھی طرح سے دیکھا ہے ،وہ مر چکے ہیں نا؟“ فکر و وحشت سے ماہ رخ کا چہرہ سفید ہو رہا تھا جبکہ اعوان متوحش تو تھا مگر ماہ رخ کی طرف خوف زدہ نہیں تھا۔
”جی ہاں ،میں نے اچھی طرح تسلی کی تھی پھر یہاں آئی۔
”میں تمہارے ساتھ ہوں ماہ رخ! تم کیوں اتنا خوف زدہ ہو رہی ہو ،میں نے سارا بندوبست کر رکھا ہے بس تھوڑی بہادری دکھاؤ اور میرے ساتھ یہاں سے نکل چلو۔“ وہ اس کے شانے پر ہاتھ رکھ کر گویا ہوا۔
”جی رانی صاحبہ! آپ دیر بالکل بھی نہ کریں ،محل سے باہر جانے والے ایک خفیہ راستہ میں جانتی ہوں۔“
”چلو پھر دیر نہ کرو ہمیں اس راستے کی طرف لے چلو۔
”آپ لوگ تیار رہیں میں ایک نظر اندر کی طرف دیکھ کر پوری طرح سے اطمینان کر آؤں پھر ایک لمحہ بھی یہاں نہیں رکیں گے۔“ معاً ذاکرہ کچھ سوچتے ہوئے بولی تو وہ بھی اس کی بات سے متفق دکھائی دیئے۔ ذاکرہ خاموشی سے وہاں سے نکل گئی تھی۔
”میرا دل بہت گھبرا رہا ہے اعوان! نہ جانے کیا ہونے والا ہے؟ غفران احمر کی موت وہ بھی عین شادی کے ایک دن قبل بہت بڑا طوفان لے آئے گی وہ یہاں کے با اختیار لوگوں میں شمار ہوتا ہے۔
“ وہ خوف زدہ لہجے میں اعوان سے مخاطب ہوئی تھی۔
”تمہیں گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے ذلیل شخص کی رستی کھینچ لی گئی ہے جو لوگ اللہ کی بنائی ہوئی حدود سے تجاوز کرتے ہیں اسی طرح بے حد آسانی سے موت ان کا شکار کر لیتی ہے ان کی اکڑ ،ان کا غرور چالبازیاں سب بے اثر ہو جاتی ہیں غفران احمر کی موت اس کے اپنے گناہوں کے سبب ہے۔“ اس نے مسکراتے ہوئے اسے تسلی دی۔
”تمام زیورات ،ملبوسات اور بے حساب روپیہ میں نے یہیں چھوڑ دیا ہے گھن آتی ہے مجھے ان سب سے وہ میرے برے دنوں کی یادگاریں ہیں۔“ اعوان کے پاس صرف ایک ہینڈ کیری تھا ماہ رخ نے بھی پرپل کلر کا سادہ سوٹ زیب تن کیا ہوا تھا اس کی بات سن کر اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”اچھا فیصلہ ہے لیکن تم لے کر جانا بھی چاہتی تو لے کر جانے نہیں دیتا ،میرے پاس کسی چیز کی کمی نہیں۔
“ اعوان نے اس کے چہرے پر نگاہ ڈالتے ہوئے مسکرا کر کہا۔
”اب ماہ رخ کو ان چیزوں کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی۔“
”ایسا کیوں کہہ رہی ہو ماہ رخ! ان چیزوں کے بغیر عورت نامکمل ہوتی ہے۔“ وہ پرخلوص لہجے میں گویا ہوا۔
”نہیں اعوان! عورت عزت سے مکمل ہوتی ہے دولت اور یہ تمام آسائشات دل کو خوش تو رکھتے ہیں مگر روح کی خواہش تو پاکیزگی و تقویٰ ہے جس کے پاس یہ ہے اس کے پاس کسی دولت کی ضرورت نہیں ہے میں اب تقویٰ کی دولت پانا چا ہوں۔
“ بولتے ہوئے اس کی آواز بھاری ہوئی اور آنسو بہنے لگے۔
”کیا میں یہ سب پاسکوں گی؟ میں جو گناہوں کی غلاظت میں لتھڑی ہوئی ہوں ،میرا داغ دار دامن پھر سے پاک و صاف ہو سکتا ہے؟“
”سچے دل سے جو توبہ کی جاتی ہے ،اپنے گناہوں پر جس طرح شرمساری ،ندامت کے آنسوؤں کے ساتھ معافی مانگو گی ،میرا دل کہتا ہے اللہ پاک تم کو ضرور معاف کر دیں گے ماہ رخ! ہمارا رب بہت غفور و رحیم ہے وہ اپنے بندوں کو کبھی مایوس نہیں کرتا۔
“ اس وقت ذاکرہ وہاں آئی تھی بڑے پرجوش انداز میں۔
”سب لوگ اپنے کمروں میں سونے کیلئے جا چکے ہیں گیٹ پر چوکیدار ہیں وہ بھی باہر کی طرف پہرہ دے رہے ہیں۔“
”پھر ہم کو کہاں سے نکلنا ہوگا؟“ اعوان نے پوچھا۔
”رئیس کی خواب گاہ میں ایک ایسی دیوار ہے جو ایک مخصوص حصے پر دباؤ ڈالنے سے دو حصوں میں بٹ جاتی ہے اور دیوار ہٹتے ہی سیڑھیاں ہیں اور ان سیڑھیوں کے اختتام پر ایک سرنگ آتی ہے اس سرنگ کا خاتمہ اس علاقے سے باہر جا کر ہوتا ہے وہاں تھوڑا چل کر سڑک آ جائے گی اور وہاں سے آپ کو گاڑی مل جائے گی۔“
”ٹھیک ہے چلتے ہیں اب۔“ اعوان نے کہا اور ماہ رخ نے کانپتے ہاتھوں سے اس کا ہاتھ پکڑ لیا تھا غفران احمر کی خواب گاہ سے گزرنا بڑا کٹھن تھا

   1
0 Comments